---- 73

طلباء کی مدد کیلئے لاگو کی گئی اسکالرشپ اور فیس کی واپسی اسکیم کے تحت فنڈس کا غلط استعمال

سی بی آئی نے 20 اداروں، 105 افراد کے خلاف چارج شیٹ داخل کرکے تحقیقات مکمل کر لی
سرینگر //مرکزی تفتیشی بیورو ( سی بی آئی ) نے ہماچل پردیش کے کروڑوں روپے کے اسکالرشپ گھوٹالے میں 20 اداروں اور 105 افراد کے خلاف چارج شیٹ داخل کرنے کے ساتھ اپنی تحقیقات مکمل کرلی ہے۔ سی این آئی کے مطابق سی بی آئی کے ذریعہ جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مرکزی حکومت کے ذریعہ شروع کی گئی اور ریاستی حکومت کے ذریعہ ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی زمروں کے طلباء کی مدد کے لئے لاگو کی گئی اسکالرشپ اور فیس کی واپسی اسکیم کے تحت فنڈز کے غلط استعمال میں بینک کے عہدیدار اور دیگر نجی افراد ملوث ہیں۔اسکالرشپ گھوٹالہ 2012-12 میں شروع ہوا تھا، جب ریاست کے شیڈول کاسٹ (ایس سی)، شیڈول ٹرائب (ایس ٹی) اور دیگر پسماندہ طبقے (او بی سی) کے طلبہ کے لیے پری میٹرک اور پوسٹ میٹرک کے طلبہ کیلئے36 اسکیموں کے تحت اسکالرشپ کی ادائیگی نہیں کی گئی تھی۔ اہل طلبائکو. اسکالرشپ کی رقم کا اسی فیصد نجی اداروں کو ادا کیا گیا۔اس گھوٹالے کا پردہ فاش ان رپورٹوں کے بعد ہوا کہ ہماچل کے لاہول اور سپتی ضلع میں قبائلی سپتی وادی میں سرکاری اسکولوں کے طلباء کو پچھلے پانچ سالوں سے اسکالر شپ نہیں دی گئی تھی۔سی بی آئی نے سال 2019 میں ہماچل پردیش حکومت کی درخواست پر ہماچل میں نجی تعلیمی اداروں کے خلاف سال 2013 سے 2017 کے دوران تقریباً 181 کروڑ روپے کے اسکالرشپ کے جعلی اور دھوکہ دہی کے دعووں پر ایک کیس درج کیا تھا۔ .اس سے قبل کچھ لوگوں کے ٹھکانوں پر تقریباً 30 مقامات پر تلاشی لی گئی تھی جس کی وجہ سے مجرمانہ دستاویزات کی برآمدگی ہوئی تھی۔ اس کے بعد تعلیمی اداروں کے چیئرمین، وائس چیئرمین، ڈائریکٹرز اور ملازمین سمیت 19 ملزمان؛ بینک کے افسران اور محکمہ تعلیم کے اہلکاروں کو گرفتار کر لیا گیا۔اسکالرشپ گھوٹالے میں 22 تعلیمی ادارے سی بی آئی کے ریڈار پر تھے جنہوں نے نہ صرف بے ضابطگیوں کا ارتکاب کیا بلکہ مبینہ طور پر طلباء￿ سے اسکالرشپ کے اجرائی کیلئے رقم ادا کرنے کو کہا۔تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جعلی لیٹر ہیڈز کا استعمال کئی تعلیمی اداروں نے غلط وابستگی ظاہر کرنے کے لیے کیا تاکہ محکمہ تعلیم کو گمراہ کیا جا سکے جو کہ بنیادی ڈھانچے کی فزیکل تصدیق اور طلبہ کی طاقت کو یقینی بنانے میں ناکام رہے۔دیگر تضادات میں اداروں کی طرف سے طلباء کے آدھار نمبر جمع نہ کرنا، ایک ہی آدھار اکاؤنٹس کا استعمال کرتے ہوئے متعدد طلباء کے اسکالرشپ کو نکالنا اور تین قومی بنکوں میں جعلی اکاؤنٹس کھولنا شامل ہیں۔انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی)، جو منی لانڈرنگ کے زاویے کی جانچ کے لیے اس کیس کی بھی تحقیقات کر رہا ہے، نے ماضی میں گرفتاریاں کی تھیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں