21

ووٹوں کی تقسیم جموںوکشمیر کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگی

بھاجپا اور اس کے عیاں و درپردہ مددگاروں کو مسترد کرنا وقت کی اہم ضرورت/ عمر عبداللہ
سرینگر // موجودہ اسمبلی انتخابات میں مقابلہ دو نظریوں کے درمیان ہے، ایک طرف فرقہ پرست بھاجپااور اس کے عیاں و درپردہ مددگار ہیں جبکہ دوسری جانب نیشنل کانفرنس کانگریس اتحاد کے جو بی جے پی کو روکنے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں کی بات کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبد اللہ نے کہا کہ موجودہ انتخابات میں عوام کو نہ صرف بھاجپا کو ناکام بنانا ہوگا بلکہ ہر اُس اُمیدوار کو بھی مستر دکرنا ہوگا جو ووٹوں کی تقسیم کرنے کیلئے میدان میں اُتارا گیا ہے کیونکہ 2014میں ووٹوں کی تقسیم کا خمیازہ جموںوکشمیر کے عوام آج بھی بھگت رہے ہیں۔سی این آئی کے مطابق انتخابی مہم جاری رکھتے ہوئے لارنو کوکرناگ اور اور راجپورہ پلوامہ میں بھاری چنائوی جلسوں سے خطاب کرتے نیشنل کانفرنس نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا کہ بی جے پی اور ان کے آلہ کاروں سے یہ سوال پوچھنا ضروری ہے کہ بی جے پی کی حکومت میں کتنے مسلمان وزیر ہیں؟ بی جے پی کی حکومت میں کتنے مسلمان ممبرانِ پارلیمان ہیں اور بی جے پی نے پارلیمانی انتخابات میں کتنے مسلمانوںکو مینڈیٹ دیا تھا؟اور جو یہاں بھاجپا کے مقامی خودساختہ لیڈران ہیں اُن کی پارٹی میں کتنی اوقات ہے ، جب بھاجپا کو 25کروڑ مسلمانوں میں سے ایک بھی مینڈیٹ اور وزیر کے قابل نہیں ملا تو آپ کی عزت پارٹی میں کیا ہے؟انہوں نے کہا کہ جو لوگ یہاں بھاجپا کی نمائندگی کرتے ہیں ، بھاجپا کا جھنڈا دکھاتے ہیں ، اُن کو شرم آنی چاہئے اور اُن عناصر کو بھی چلو بھر پانی میں ڈوب جانا چاہئے جو درپردہ طور پر اس مسلمان کُش جماعت کی مدد کررہے ہیں۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد یہ پہلی حکومت کے جس میں کوئی بھی مسلمان وزیر نہیںہے، اور یہی حکومت آج جموںوکشمیر میں ووٹوں کا بٹوارہ کرکے یہاں حکمرانی چلانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اسی لئے یہاں آزاد اُمیدواروں اور نت نئی سیاسی جماعتوں کی بھرمار ہے، جو جھوٹ ، فریب اور غلط بیانی کے ذریعے ووٹوں کی تقسیم کرکے بھاجپا کی مدد میں لگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ووٹوں کی تقسیم جموںوکشمیر کیلئے نقصان دہ ثابت ہوئی ہے ، 2014کے انتخابات ہمارے سامنے ایک بہترین مثال ہے۔ اس وقت پی ڈی پی نے محض بھاجپا کیخلاف ووٹ مانگے اور 28نشستیں حاصل کیں اور پھر سیدھے ان سیٹوںکو بھاجپا کی گود میں ڈال دیا ، اور ہمیں 5اگست 2019کا دن دیکھنا پڑا اور اس کے بعد سے آج تک تاناشاہی کا نظام جھیلناپڑا۔ گذشتہ5برسوں کے دوران پکڑ دھکڑ، گرفتاریاں، ہراسانیاں، نوجوانوں کی تنگ طلبی ، مختلف قوانین کا استعمال، مقامی جیل بھر گئے تو یہاں کے قیدیوں کو باہری جیلوں میں بھیجا گیا، پی ایس اے کا اندھا دھند استعمال کیا گیا، بے روزگاری بڑھائی گئی ،اس سب کو ہمیں ٹھیک کرنا ہے ۔ ہم نے وعدہ کیا ہے کہ نیشنل کانفرنس کی حکومت جمو ں وکشمیر میں پی ایس اے کا قانون ختم کردے گی تاکہ مستقبل میں اس کا غلط استعمال نہ ہوسکے۔ آج ہمارے نوجوانوں کو نوکری، پاسپورٹ اور قرضوں کیلئے مقصود ویری فکیشن پر ذہنی کوفت کا شکار بنایا جاتا ہے، ہم نے وعدہ کیا ہے کہ ہم اس ویری فکیشن کے عمل کو آسان بنا دیںگے، جیسے ہم نے اپنی سابق حکومت کے دوران کیا تھا۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ سیاسی مسائل کیساتھ ساتھ ہمیں اُن مسائل و مشکلات کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے جو یہاں کے عوام کو روزمرہ زندگی میں درپیش ہیں۔ ہم نے اپنے منشور میں بے روزگاری کے سنگین مسئلے سے نمٹنے کیلئے روزگار پالیسی بنانے کا وعدہ کیا ہے، ہم نے بجلی سپلائی میں معقولیت کیساتھ ساتھ فیس میں راحت اور پینے کے پانی کے فیس میں راحت دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ ہم نے بیوائوں، بزرگوں اور معاشی طور کمزور طبقوں کیلئے اُن سکیموں کی بحالی کا بھی وعدہ کیا ہے جس حالیہ برسوں میں بند کی گئیں ہیں۔ شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ نے جموں وکشمیر کے بچوں کو یونیورسٹی تک مفت تعلیم کا حق دیا تھا لیکن گذشتہ برسوں کے دوران ایک ایک کرکے اس میں کمی کی گئی، ہم نے اپنے منشور میں اعلان کیا ہے کہ نیشنل کانفرنس کی حکومت بننے کی صورت میں ہم یونیورسٹی تک مفت تعلیم کی بحالی عمل میں لائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں