-- 58

تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ضروری ہے

قیصر محمود عراقی

آج کل کے دور میں زیادہ نمبر حاصل کر نے کے باوجود بھی طلبا و طالبات میں تر بیت کا فقدان ہے ، کیونکہ ہمارے تعلیمی ادارے اس کو چنداں اہمیت نہیں دیتے، مہینے میں ایک آدھ بار ٹیچر ز کے لئے تر بیتی نشست رکھنے سے تر بیت نہیں ہو جا تی ۔ میرے خیال میں تر بیت تو تعلیم سے زیادہ ضروری ہے ، تعلیم فقط آپ کو ڈگری دیتی ہے جبکہ تر بیت آپ کو ایک کا میاب انسان بناتی ہے ۔ ہو سکتا ہے اچھی ڈگری حاصل کر کے آپ کو اچھی ملازمت مل جا ئے مگر آپ کبھی بھی معاشرے کے لئے فائدہ مند انسان نہیں بن سکتے اگر آپ کی تر بیت اچھی نہیں ہو ئی ۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ زیادہ پیسہ کمانے والا شخص ہی کا میاب اور معاشرے کے لئے فائدہ مند ہو سکتا ہے، اصل کا میاب لوگ وہ ہیں جو معاشر ے کی سوچ بدل دیتے ہیں ۔مال و دولت کو تو چوری کیا جا سکتا ہے مگر اچھی سوچ پر پہرے نہیں بٹھائے جا سکتے ، معاشرے میں تبدیلی صرف اچھی سوچ سے آتی ہے ۔
یاد رکھیں ! تعلیم صرف آپ کی دماغی صلاحیتوں کو جلا بخشتی ہے مگر اچھی اور عمدہ تر بیت آپ کی روحانی اور معاشرتی صلاحیتوں میں اضافہ کر تی ہے اور آپ کو کا میاب بناتی ہے اور آپ کی ذات کے ساتھ ساتھ معاشرے کو بھی فائدہ بہم پہنچانے کا سبب بناتی ہے ۔ تر بیت ہمارے لئے کوئی الگ موضوع نہیں ، بچوں کو قرانی آیات پڑھانے اور چند حدیثیں اور دعائیں یاد کروانے کو ہی تر بیت کا نام دیا جا تا ہے ، اسکول کی اسمبلی میں گولڈن ولڈ ز پڑھنا تر بیت نہیں ، اصل تر بیت تو ان پر عملی پیرا ہو نا ہے ۔بڑوں کی عزت و احترام کر نا کبھی بھی کتابیں پڑھنے سے نہیں آتا بلکہ جب آپ دوسروں کو بڑوں کا ادب احترام کر تا دیکھتے ہیں تبھی آتا ہے ۔ بچے عمل سے سیکھتے ہیں ، جس چیز کا عملی مظاہرہ بچوں کے سامنے کیا جا تا ہے وہ ان کے ذہنوں پر نقش ہو جا تا ہے اور وہ چاہتے نہ چاہتے ان پر عمل پیرا ہو جا تے ہیں ۔ اگر گھر میں کسی بچے کی زبان سے کوئی نازیبا بات ادا ہو تی ہے تو گھر کے افراد بڑی حیرت کا اظہار کر تے ہیں کہ اس نے یہ سب کہاں سے سیکھا ؟ گھر میں تو ایسا کوئی نہیں کہتا یا کوئی نہیں کر تا ، ہو سکتا ہے اس بچے نے وہ الفاظ گلی سے گذرتے ہو ئے سنے ہوں ، ہو سکتا ہے کہ دوبڑے آپس میں بات کر تے ہو ئے وہ الفاظ بول گئے جن کا انہیں احساس تک نہ ہو کہ بچے بھی یہ الفاظ سن رہے ہیں اور وہ یہ الفاظ برا بھی ہو سکتے ہیں ۔ اکثر یہ سوال کیا جا تا ہے کہ کیوں بچے ہماری بات نہیں مانتے ، بد تمیز ی کر تے ہیں ، یاد رکھیں ! بچے ہمیشہ وہی کر تے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں ، جو خوبیاں آپ بچوں میں دیکھنا چاہتے ہیں وہ خوبیاں پہلے خود میں پیدا کرلیں۔
بڑے بزرگ فرماتے ہیں کہ بر تن میں جو ڈالیں گے وہی نکلے گا ، دودھ ڈالینگے تو دودھ نکلے گااور پانی ڈالینگے تو پانی نکلے گا ، پانی ڈال کر دودھ نکلنے کی امید رکھنا تو غلط ہے ۔ ہم اپنے اعمال پر تو غور کرنا نہیں چاہتے لیکن ہمیں اولاد دفر ما نبردار اور دودھ کی دھلی چاہیئے ، یہ کیسے ممکن ہے ۔ ایک ماں اپنے بچوں کو لیکر حضور ﷺ کے پاس گئی اور درخواست کی کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ بچہ میٹھا بہت کھاتا ہے آپ اسے منع کر دیں ، آپ نے فر مایا ! اسے میرے پاس اگلے ہفتے لیکر آنا ، جب عورت اپنے بچے کو لیکر گئی تو آپ ﷺ نے بچے کو پاس بلا کر پیار کیا اور پھر پیار سے کہا کہ بیٹا میٹھا زیادہ نہ کھایا کر و، عورت کو بڑا تعجب ہوا اور اس نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ آپ یہ بات اسے پچھلے ہفتے بھی کہہ سکتے تھے تو آپ ﷺ نے فر مایا کہ پہلے میں بھی میٹھا بہت کھاتا تھا اگر میں اس دس یہ کہہ دیتا تو شاید بچے پر اثر نہ ہو تا ، اس ایک ہفتے میں میں نے اپنے اس عادت پر قابو پایا اور پھر میں نے بچے کو نصیحت کی تا کہ اس پر میری بات کا زیادہ اثر ہو سکے ۔ جب آپ کے قول و فعل میں تضاد ہو گا تو آپ کی بات میں اثر باقی نہیں رہے گا ۔ اسی طرح ہمیں ایک اچھا مسلمان بننا چاہیئے ، اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اگر ہم اس کی تعلیمات پر درست انداز میں عمل کریں تو ہم زندگی کے ہر شعبے میں کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ مگر آج افسوس اس بات پر ہے کہ غیر مسلم ہمارے اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی زندگیاں گذار رہے ہیں جب کہ ہم مسلمان ہو تے ہو ئے بھی ان اصولوں پر عمل نہیں کر تے ۔ چھوٹ بولنا ، دھوکہ دینا ، وعدہ خلافی کر نا ، غیبت کر نا، چغلی کر نا ، رشوت ستانی ، سفارش ، کم تولنا ، چیز بیچتے وقت اس میں موجود نقص سے آگاہ نہ کر نا اور اس طرح کی بے شمار چیزیں جس کو اب ہم گناہ نہیں سمجھتے ۔ یہ برائیاں ہمارے اندر کس قدر رچ بس گئیں ہے کہ اب وہ ہمیں برائیاں نہیں لگتیں ، اصل بات یہ ہے کہ ہم اللہ کو بھول گئے ہیں ، اگر ہم پانچ وقت باقاعدگی سے نماز پڑھیں ، قرآن مجید کی روزانہ تلاوت کریں اور اس کے معانی تفسیرکو سمجھنے کی کوشش کریں اور اپنے دل میں خوفِ خدا رکھیں تو ہم ان برائیوں کے قریب بھی نہیں جائینگے ۔ آزمائش شرط ہے ، جب کسی چیز کا بار بار اعادہ کر تے ہیں تو وہ چیز ہمیں بھولتی نہیں ، یہی صورت حال نماز کی ہے پانچ وقت نماز ہمیں اللہ کے قریب لیکر جا تی ہے ، لیکن کیا بتائوں کہ آج کل ہم لوگوں کو نماز پڑھنے کے لئے بھی وجہہ یا سبب کی ضرورت ہو تی ہے ۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم بے سبب عبادت کریں ، عبادت تو فرض ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آپ نماز پڑھ کر امتحان میں کا میابی حاصل کر نا چاہتے ہیں تو آپ کی سوچ سراسر غلط ہے ، جس عبادت میں اللہ کی خوشنودی مطلوب نہیں اس عبادت کا کوئی فائدہ نہیں ، اگر آپ اللہ کی خوشنودی کے لئے نماز پڑھوگے تو اللہ کے ہاں صلہ بھی زیادہ ملے گا اور تمام قسم کمے امتحانوں میں کامیابی بھی ملے گی ۔
الغرض تر بیت کی اصل جگہ ہمارا گھر ہے جہاں ہم لوگ دن کا زیادہ وقت صرف کر تے ہیں اور اس کی ذمہ داری والدین اور اساتذہ دونوں پر ہے ۔ کسی ایک کو مورد الزام ٹھہرانا غلط ہے ، والدین اور اساتذہ دونوںکو اپنا اپنا کردار ادا کر نا چاہیئے ، صرف تعلیم پر زور دینے کی بجائے تر بیت پر بھی مساوی تو جہہ دینی ہو گی ، امتحان میں اچھے نمبر لے لینا ہی کا میابی نہیں بلکہ کا میاب وہی ہے جو اچھا انسان بھی ہے ۔ اگر معاشرے میں اچھے انسانوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے تو اس معاشرے کو تر قی کر نے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔اللہ آپ کو اچھا انسان بننے کی توفیق عطا کرے اور اللہ کی مخلوق میں آسانیاں تقسیم کر نے کی ہمت عطا کرے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں