- 32

کیا رہی شیخ حسینہ کی حکومت جانے کی وجہ؟

سید خرم رضا

بنگلہ دیش میں جو کچھ ہوا اور جو ہو رہا ہے اس کا اس مطابق سے تصور نہیں کیا گیا تھا۔ کل صبح تک کسی نے یہ نہیں سوچا تھا کہ ملک کی وزیر اعظم کو استعفی دے کر ملک چھوڑنا پڑ سکتا ہے۔ مظاہرین اس قدر پرتشدد ہو جائیں گے کہ حکومت لاچار نظر آئے گی اور مظاہرین کا بنگلہ دیش میں اس طرح کا بول بالا ہو گا، اس تصور کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آ رہی تھی، بس اتنا ذہن ضرور تیار ہو گیا تھا کہ بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت کے دن پورے ہو گئے ہیں۔
شیخ حسینہ نے ابھی حال ہی میں انتخابات جیتے تھے جس میں مرکزی حزب اختلاف پارٹی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی یعنی خالدہ ضیاء کی بی این پی نے حصہ نہیں لیا تھا۔ واضح رہے کہ ملک کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے خالدہ ضیاء کو جگر کی پیوند کاری کے لئے جرمنی بھی نہیں جانے دیا تھا جس کی وجہ سے دونوں رہنماؤں کے درمیان بہت تلخی پیدا ہو گئی تھی۔ جب سال 1975 میں شیخ مجیب الرحمان کے تمام اہل خانہ کو قتل کر دیا گیا تھا اس وقت شیخ حسینہ اپنی بہن کے ہمراہ بنگلہ دیش سے باہر تھیں جس کی وجہ سے وہ بچ گئی تھیں اور بعد میں سیاست میں آ کر ملک کی وزیر اعظم بھی بن گئی تھیں۔
ویسے تو حکومت کے خلاف ناراضگی کی وجہ سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن نظام بنی، لیکن اس میں شیخ حسینہ کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کا بہت حد تک دخل رہا۔ دراصل بنگلہ دیش میں 30 فیصد ان لوگوں کو سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن دیا جاتا ہے جنہوں نے بنگلہ دیش کی آزادی میں حصہ لیا تھا۔ بعد ازاں اس ریزرویشن میں ان مجاہدین آزادی کے بچوں اور بعد میں ان کے بچوں کے بچوں کو بھی شامل کر دیا گیا تھا۔ سرکاری نوکریوں کے لئے مارا ماری تھی، اوپر سے اس ریزرویشن نے، اور بڑھتی بے روزگاری نے اس آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا۔ سامنے سے مظاہروں کی یہ وجہ بنی اور شیخ حسینہ نے اس کو ہی اصل مدا سمجھ کر اس کو حل کرنے کے لئے اعلانات بھی کئے، اور ان کی نظر میں انہوں نے ہوا کے رخ کو پڑھ لیا۔ انہوں نے یہ ریزرویشن تقریباً ختم کر دیا تھا جس کو سپریم کورٹ نے انہیں کی پارٹی کے رکن کی درخواست پر بحال کر دیا تھا، اور آنے والے کل یعنی 7 تاریخ کو اس پر فیصلہ آنا تھا۔ شیخ حسینہ نے مظاہرہ کرنے والے طلباء سے بات کر کے ان کے تمام مطالبات مان لئے تھے جس کی وجہ سے یہ مظاہرے کچھ روز کے لئے خاموش ہو گئے تھے لیکن کچھ دن پہلے دوبارہ یہ مظاہرہ شروع ہوا اور اس مرتبہ مظاہرین نے شیخ حسینہ حکومت کی برطرفی کا مطالبہ کر دیا۔
مبصرین کی رائے میں مغربی ممالک پہلے ہی شیخ حسینہ کے انتخاب پر سوال کھڑے کر چکے تھے۔ انہوں نے بنگلہ دیش میں ہوئے انتخابات، جس میں شیخ حسینہ پھر سے وزیر اعظم منتخب ہوئی تھیں ان پر ہی سوال کھڑے کر دیے تھے۔ واضح رہے کہ اس وقت تک مغربی ممالک کا سب سے بڑا حریف سمجھا جانے والا چین شیخ حسینہ کے ساتھ تھا لیکن وزیر اعظم بننے کے بعد شیخ حسینہ نے چین کو بھی آنکھیں دکھا دیں۔ شیخ حسینہ کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ مغربی ممالک اور پاکستان پہلے ہی ناراض ہیں اور اب چین کی ناراضگی ان کو کتنی مہنگی پڑے گی۔ چین اور پاکستان نے متحرک طور پر اور مغربی ممالک نے خاموش تماشائی بن کر اس سارے کھیل میں اپنا کردار ادا کیا۔
شیخ حسینہ کا انتخابات جیتنے کے بعد پھر سے وزیر اعظم بننے نے ان کو بنگلہ دیش کا تاناشاہ بنا دیا تھا اور اس تاناشاہی رویہ کی وجہ سے ان کو یہ دن دیکھنے پڑے کہ انہوں نے نہ صرف وزارت عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دیا بلکہ ان کو جان بچانے کے لئے ملک بھی چھوڑنا پڑا۔ انہوں نے اپنے تاناشاہی رویہ کی وجہ سے نہ صرف خارجہ کی طاقتوں کو سمجھنے میں غلطی کی بلکہ وہ داخلہ کی طاقتوں کا بھی اندازہ لگانے میں ناکام رہیں۔ شیخ حسینہ اپنی حریف بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور جماعت اسلامی کی طاقت کا اندازہ لگانے میں پوری طرح ناکام رہیں۔ بہر حال جو بھی وجہ رہی ہو لیکن شیخ حسینہ کو چین کی ناراضگی اور اس میں مغرب کی خاموش رضامندی ان کے لیے مہنگی ثابت ہوئی اور وہ سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن کو اصل مدا سمجھ کر اسی مدے کو حل کرنے میں لگی رہیں، جبکہ مدا کچھ اور تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں