وزیر اعظم نے ہندئوں کو ڈرانے کیلئے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوئی کثر باقی نہیں چھوڑی/ ڈاکٹر فاروق
سرینگر// بھاجپا نے جموںوکشمیر کو ایک مسلم اکثریتی ریاست ہونے کا بدلہ لیا اور اس تاریخی ریاست کا درجہ کم کرکے نہ صرف اسے خصوصی پوزیشن سے محروم کردیا بلکہ دولخت کرکے مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کردیا کی بات کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبد اللہ نے کہا کہ ملک کی آزادی سے لیکر آج تک کسی بھی ریاست کو یونین ٹریٹری میں تبدیل نہیں کیا گیا تھا بلکہ یونی ٹریٹریوں کو ریاستوں میں تبدیل کردیا گیا تھا ، اس سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ بی جے پی کو ہمارے اس ریاست کیساتھ کتنی نفرت ہے۔ سی این آئی کے مطابق گاندربل اور حلقہ انتخاب زیڈی بل میں انتخابی مہم کے دوران چنائوی اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے صدرِ نیشنل کانفرنس ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے جموںوکشمیر کے عوام کو ہوشیار کیا کہ وہ بھاجپا اور ان کے مقامی عیاں و درپردہ آلہ کاروں کے حربوں سے ہوشیار رہیں اور ان کے جھانسے میں نہ آئیں۔ ایک پارٹی نے 2015میں بھاجپا کو یہاں لاکر بہت بڑی غلطی کی جس کا خمیازہ ریاست کے ہر ایک باشندے کو بھگتا پڑا لیکن اب غلطی کی گنجائش نہیں۔ جو لوگ بھاجپا کے اشاروں پر یہاں کام کررہے ہیں، اُن کو وقت رہتے پہچان کر ان کو مسترد کرنا انتہائی لازمی ہے کیونکہ اگر جموں و کشمیر کی بھاگ ڈور پھر سے بھاجپا کے ہاتھ لگ گئی تو وہ یہاں کے عوام پر کسی قیامت سے کم نہیں ہوگی ۔مسلمانوں کے تئیں بھاجپا کی نفرت کا اندازہ آپ کو پارلیمانی الیکشن کے دوران ہی ہوا ہوگا جبکہ وزیر اعظم نے ہندئوں کو ڈرانے کیلئے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوئی کثر باقی نہیں چھوڑی۔ آپ نے دیکھا ہوگا کس طرح سے اُس نے کہا کہ مسلمان زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں، مسلمان یہاں کے نہیںہیں، اگر ہندو کے پاس دو گائیں ہونگی تو ایک مسلمانوں کو دی جائے گی، اگر دو مکان ہونگے ایک مسلمان کو دیا جائے گا، خواتین کو بولا کہ آپ کا منگل سوتر نکال کر مسلمانوں کو دیئے جائیں گے۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ موجودہ اسمبلی انتخابات کسی اور مسئلے کا نہیں ہے بلکہ صرف ایک سوال ہے، کیا ہم بھاجپا کے جنگل سے بچیں گے یا نہیں بچیں گے؟ہماری مائوں،بہنوں، بھائیوں، بزرگوں اور نوجوانوں کی عزت ہوگی یا نہیں ہوگی؟ کیونکہ گذشتہ 10سال خصوصاً2019کے بعد سے لیکر آج تک جس طرح سے حکومتی سطح پر یہاں عوام کُش فیصلے اور کشمیر دشمن پالیسی اختیار کی گئی ہے وہ انتہائی خطرناک ہے اور اس کا تدارک کرنے کیلئے جموںوکشمیر میں ایک مضبوط عوامی منتخبہ حکومت کی ضرورت ہے اور وہ عوام کے ووٹ کے صحیح استعمال سے ہی ممکن ہوسکتی ہے، اس لئے ایک ایسی جماعت کو ووٹ دینے کی ضرورت ہے جو یہاں کے عوام کی صحیح ترجمانی کرسکے اور راحت پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور یہ جماعت نیشنل کانفرنس ہے۔